SADAT FAMILY
HISTORY OF SADAT HASANI-HUSSAINI
شاہ حسین المعروف مادھو لال حسین
شاہ حسین المعروف مادھو لال حسین
اپنی زندگی کے ایک حصے میں شاہ حسین کی مادھو سے ملاقات ہوئی۔ مادھو ایک برہمن زادے تھے۔ ان دو افراد کا تعلق اتنا گہرا ہو گیا کہ عوام شاہ حسین کو مادھو لال حسین کے نام سے جاننے لگے، گویا وہ دونوں یک جان ہو گئے۔ قربت کا یہ گہرا تعلق جو ان کے درمیان میں پیدا ہوا، ان کی زندگی ہی میں بہت سی بدگمانیوں اور اختلافات کا باعث بن گیا۔ ہندوستانی تصوف کے ماہر جان سبحان لکھتے ہیں کہ ایک ہندو لڑکے اور مسلمان فقیر کا یہ انتہائی قریبی تعلق ان کے معاصرین کے نزدیک "قابل شرم" ہونے کی وجہ سے "قابل اعتراض کردار" کا مظہرتھا۔ جبکہ جان سبحان ان دو افراد کی درمیان میں تعلق کی اس "ناقابل صبرکشش" کو "عشق" قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح پنجابی تاریخ دان شفیع عاقل مادھو اور شاہ حسین کے اس تعلق کو "لا محدود محبت" کہتے ہیں اور اس تعلق کو بیان کرنے کے لیے زبان و بیان کے وہی پیرائے اختیار کرتے ہیں جو عام طور پر مرد اور عورت کے تعلق کو بیان کرنے کے لیے اختیار کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ "مادھو سے شاہ حسین کو پیار تھا اور خود مادھو بھی ان کو چاہتے تھے"۔ وہ یہاں تک لکھتے ہیں کہ "شاہ حسین مادھو سے کسی صورت جدا ہونے کے لیے آمادہ نہ تھے۔
تذکرہ شاہ حسین المعروف مادھو لال حسین
ابتدائی زندگی
شاہ حسین لاہوری 945ھ بمطابق 1539ءمیں ٹکسالی دروازے لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی کا نام شیخ عثمان تھا جو کپڑا بننے کا کام کرتے تھے۔ آپ کے دادا کا نام کلجس رائے ہندوتھا جو فیروز شاہ تغلق کے دور میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ تھے لیکن والد حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ آپ کاخاندانی نام ڈھاڈھا حسین تھا۔ ڈھاڈھا پنجاب کے راجپوتوں کی ایک ذات ہے۔ والد شیخ عثمان بافندگی یعنی کپڑے بننے (جولاہا)کے پیشے سے منسلک تھے۔ چنانچہ آپ محلے میں حسین جولاہا کے نام سے جانے جاتے تھے۔ آپ کی پیدائش کے وقت آپ کے والد شیخ عثمان ٹکسالی دروازے کے باہر راوی کے کنارے آباد ایک محلے میں رہائش پزیر تھے جو تل بگھ کہلاتا تھا ۔ اکبر بادشاہ نے اس چِلّہ پر ایک خانگاہ تعمیر کروائی اور اس جگہ کو اب چِلّہ شاہ بدر دیوان کہا جاتا ہے۔
زندگی
شاہ حسین تصوف کے فرقہ ملامتیہ سے تعلق رکھنے والے صاحب کرامت صوفی بزرگ اور شاعر تھے، وہ اُس عہد کے نمائندہ ہیں جب شہنشاہ اکبر مسند اقتدار پر متمکن تھا۔ شاہ حسین پنجابی زبان و ادب میں کافی کی صنف کے موجد ہیں۔ وہ پنجابی کے اولین شاعر تھے جنھوں نے ہجر و فراق کی کیفیات کے اظہار کے لیے عورت کی پرتاثیر زبان استعمال کی۔ شاہ حسین نے بے مثل پنجابی شاعری کی۔ اُن کی شاعری میں عشق حقیقی کا اظہار ہوتا ہے۔
انتقال
لاہور میں برس ہابرس تک درو یشانہ رقص و سرود کی محفلیں آباد کرنے کے بعد یہ درویش 1599ء میں اللہ کو پیارا ہو گئے۔ ان کی قبر اور مزار لاہور کے شالیمار باغ کے قریب باغبانپورہ میں واقع ہے، ہر سال میلہ چراغاں کے موقع پر ان کا عرس منایا جاتا ہے۔ مادھو، ان کے بعد اڑتالیس سال بعد تک زندہ رہے اور انھیں شاہ حسین کے برابر میں ایک مقبرے میں دفنایا گیا۔ یہ مزار آج تک عقیدت مندوں کی بہت بڑی تعداد کا مرجع ہے کہ یہاں جدا نہ ہو سکنے والے دو ایسے عاشقوں کی قبریں ہیں جو مرنے کے بعد بھی اسی طرح ایک ہیں جیسے زندگی میں تھے۔